jcm-logo

تھائی لینڈ میں ایک اور پاکستانی مسیحی کی قبر

تھائی لینڈ میں ایک اور پَاکستانی مسیحی کی قبر - تھائی لینڈ میں مسیحیوں کی مشکلات

      ایک اور پَاکستانی مسیحی دنیا سے بے وقت رخصت ہوا، ایک اور خاندان برباد ہو گیا. تھائی لینڈ اب تک سیاحت کے لیے ایک مشہور ملک کے طور پر جانا جاتا تھا لیکن اب سے یہ ملک پاکستانی مسیحیوں کے قبرستان کے طور پر بھی یاد کیا جائے گا. گزشتہ مہینوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت سے پَاکستانی مسیحی جو تھائی لینڈ میں اس امید سے آئے تھے کہ یہاں ان کی آواز سنی جائے گی اور انہیں پناہ ملے گی، ان کو یہاں اگر کچھ ملا تو صرف خوف، جھوٹے وعدے، ناانصافی اور ذہنی تناؤ۔

ایک اور پَاکستانی مسیحی پناہ گزیں جس کا نام شاہد لطیف تھا اور جسکی عمر صرف تیتیس سال تھی آج زندگی کی جنگ ہار گیا. خاندان کے مستقبل کی فکر اور کھانے اور ادویا کی کمی چند ایسی وجوہات تھیں جن کو وہ چاہتے ہوئے بھی پورا نہ کر سکا اور بے بسی کی حالت میں جان دے کر اپنے خاندان کو پیچھے روتا تڑپتا اور بے سہارا چھوڑ گیا۔

اکثر اس بات کا احتجاج ہوتا ہے کہ بین الا قوامی مسیحی برادری تھائی لینڈ میں مقیم ان پاکستانی مسیحیوں کے لئے کچھ خاص اقدامات نہیں اٹھا رہی. لیکن میں تو یہی کہوں گا کہ کیوں کسی کو ان غریب لوگوں کی مدد کرنی چاہیے جب کے ان کی مدد کرنے کے سبب سے کوئی معاشرتی شہرت حاصل نہیں ہوگی؟

کیوں مغربی ممالک ان مسیحیوں کو بنا کسی مطلب کے گلے لگائیں جب کے ایسا کرنے سے انہیں کوئی سیاسی یا مالی فائدہ نہیں ہوگا؟ کیوں ان ستائے ہوئے لوگوں کو ایک نئی زندگی جینے کا موقع دیا جائے جب کہ اپنے آپ کو مسیحی کہنے والے ممالک خدا کے حکموں کے بلکل بھی فرمانبردار نہیں؟ ایسا لگتا ہے کہ یہ پریشان اور ٹھکرا دیے گئے لوگ مسیحی ہوتے ہوئے بھی مسیح کے بدن کا حصہ نہیں ہیں اور اسلامی ممالک میں پیدا ہونا ان کی اپنی ناقابل معافی غلطی ہے جس کی سزا بھگتنا خود ان کی ذمہ داری ہے۔

اب کچھ دن کا افسوس ہو گا، شاہد لطیف کی موت پر چند مکالمے لکھے جائیں گے، وقتی طور پر کچھ امداد اس کے خاندان کو دی جائے گی اور اس سب کے بعد زندگی پھر واپس اپنے راستے. وہی مسلے، وہی پرشانیاں، پھر سے وہی بار بار معصوم مسیحیوں کی وقت سے پہلے موت. کیا تھائی لینڈ میں رہنے والے پاکستانی مسیحیوں پناہ گزینوں کی تقدیر یہی ہے؟

وہ لوگ نہ تو کھانے کی اور نہ ہی پیسوں کی بھیک مانگتے ہیں، وہ بھی ہم لوگوں کی طرح انسان ہیں، مسیحی ہیں اور وہ بھی مسیح سے ایسے ہی پیار کرتے ہیں جیسے ہم کرتے ہیں. وہ لوگ صرف مسیح کی عبادت اور پرستش کی آزادی چاہتے ہیں، ایک امن پسند ملک میں رہنا چاہتے ہیں جہاں ان کی زندگیاں محفوظ ہوں. وہ لوگ عزت اور وقار چاہتے ہیں اور اس خوف سے آزاد ہونا چاہتے ہیں جو انہوں نے پاکستان میں رہ کر برداشت کیا جبکہ اوپن ڈور آرگنائزیشن کے مطابق دنیا میں پاکستان چھٹے نمبر پر مسیحیوں کے رہنے کے لیے سب سے خطرناک جگہ ہے۔